By Asif Raza
نماز سے دوری
دین اسلام کے پانچ ارکان (کلمہ طیبہ ،نماز ،روزہ ،حج اور زکوۃ) ہیں ۔یہ سب ارکان اہم اور ضروری ہیں لیکن میں آپ کے ساتھ نماز کی اہمیت اور اس کو ترک کرکے ہونے والے فسادات ،نقصانات اور مشکلات کو سامنا کررہے ہیں اسکو بتانا چاہوں گا۔اور اگر میں نماز کی بات کروں تواسی نماز کو کہیں ’’مومن کی مواج کیا گیا ہے۔‘‘کہی جنت کی کنجی کہاگیا ہے،کہیں حضورپاک ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کہاگیاہے۔ تو کہیں اس کودین ستون کہاگیا ہے۔ یہ ارکان مسلمان کیلئے اتناہی ضروری ہے جتنے کے دوسرے ارکان ضروری ہے ۔بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بس ہم نے کلمہ پڑھ لیاہے بس مسلمان ہوگئے ہیں اور ہم بخشے جائے گے ۔اس ارکان کے علاوہ باقی کسی ارکان کی ضرورت نہیں ۔کچھ لوگ ایسے بھی ہے جن کا یہ عقیدہ ہے کہ ہماری نمازیں پڑھی ہوئی ہیں ہم روز قیامت بخشے جائیں گئے تو میں اپنے اُن مسلمانوں بھائیوں کو یاد دواناچاہتا ہوں کہ کربلا کے میدان میں بھی حضرت امام حسینؓ نے سر تو تن سے جدا کروادیالیکن دین حق کو نہیں چھوڑا اور سب سے بڑی حیرن ہونے کی بات ہے کہ دشمنوں کے ہونے کے باوجود آخری وقت تک نماز کو نہیں چھوڑا ۔میرااُن بھائیوں سے یہ سوال ہے کہ ہم جس نبی ﷺ کی اُمتی اور اُن کے نواسوں کو ماننے والے ہیں انھوں نے آخر ی وقت تک نماز کو نہیں چھوڑا تو ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ ہم بخشے جائے گئے یا ہماری نمازیں پڑھی پڑھائی ہیں ۔اگر ہم آج کے اس جدید دور میں نئی آنے والی نسل سے نماز کے بارے میں پوچھے تو بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو کہ نماز کے بارے میں نہیں جانتے کہ اس کو کیسے ادا کرتے ہیں یا پڑھنے کا طریقہ کیا ہے ۔
ہمیں آج ڈراموں ،فلموں اور گانوں کے بارے میں تو بہت معلومات ہے۔اور اسی وجہ سے آج ہم اپنی آخر ت کو تو خراب کرہی رہے ہیں ۔جیسے کہ آج ہر انسان یہ سوچتا ہے کہ میرے پاس عیش و�آرام کی ہر چیز موجود ہو ۔میرے پاس ،دولت ہو،رزق ہو،اولاد فرمابردار ہو ،راحت ہو ،میں حسین بھی ہوجاؤں اور میرے پاس دینا کی طاقت ہو بلکہ میں ہر جگہ ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں ۔اور انسان اپنی ہر کو شش کرنے کے بعد اپنے سوچ کودوے کار لانے میں ناکام ہوگیا ہے۔اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ نماز سے دوری اورنمازسے غفلت ہے۔آج انسان جن چیزوں کی طالب کرتا ہے وہ سب چیزیں دین کے اس ستون( نماز)سے حا صل کر سکتے ہیں۔لفظ حیےٰ اللفلاح جس کو ہم دن میں پا نچ مرتبہ سنتے ہیں لیکن اس کے مفہوم یا ترجمہ کو نہیں سمجھتے جس کا مطلب ’’آؤ کا میابی کی طرف یا آؤ فلاح کی طرف‘‘ اور ہم کامیابی حا صل کرنے کیلئے پتہ نہیں کیا کیا کرتے ہیں۔یہ لفظ ہمیں اس با ت کی طرف اشارہ کروا رہا ہے کہ کا میابی نمازمیں ہی ہیں۔جس کو ہم پڑھتے نہیں ہے پھر ہم شکوے گلے اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔آج کے اس دور میں ہر انسان کے پریشان ہونے کی وجہ بھی یہی ہیں۔حدیث نبوی ہیں۔’’جس نے فجر کی نماز ترک کی اس کے چہرے سے نور ختم کر دیا جاتا ہے۔‘‘ ’’جس نے ظہر کی نماز ترک کی اس کی روزی سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔‘‘’’جس نے عصر کی نماز ترک کی اس کے جسم سے طاقت ختم کردی جاتی ہے۔‘‘جس نے مغرب کی نماز رترک کی اُس کو اُس کی اُولاد کی خوشی حاصل نہ ہوگی ۔‘‘’’جس نے عشاء کی نماز ترک کی اُس کی نیندسے راحت ختم کردی جاتی ہے۔‘‘اگر ہم ان سب چیزوں کو دیکھتے تو ہر انسان یہ سہولیتں چاہتا ہے کہ میرے رزق میں وسعت ہو، میرے پاس دنیاکی طاقت ہو ،اُولاد فرمابردارہواور میں رات کو چین کی نیند سو سکوں ۔لیکن آج نفسہ نفسی کے دور میں ہر انسان آبھول چکاہے کہ سب چیزیں تو میرے پاس ہیموجود ہے میں جن کی تلاش میں میں اپنی آخرت اور دنیا کو خراب کیے جارہا ہوں ۔سب سہولیتں اللہ تعالیٰ نے نماز میں ہی رکھ دی ہیں جس پر عمل کر کے انسان اپنی آخرت کو اور دنیا کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں ۔میں انتہائی شرم سے یہ بات کہتا ہوں کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہے اور نماز نہیں پڑھتے ہالانکہ حدیث شریف کا مفہوم واضح ہے کہ ’’مسلمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑ دینے کا فاصلہ ہے۔‘‘اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ۔جس نام کے مسلمان اور یہ نماز جیسا غصہ ہی جس کا دامن تھام کر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ورنہ کامیابی ممکن ہی نہیں ۔
دین اسلام کے پانچ ارکان (کلمہ طیبہ ،نماز ،روزہ ،حج اور زکوۃ) ہیں ۔یہ سب ارکان اہم اور ضروری ہیں لیکن میں آپ کے ساتھ نماز کی اہمیت اور اس کو ترک کرکے ہونے والے فسادات ،نقصانات اور مشکلات کو سامنا کررہے ہیں اسکو بتانا چاہوں گا۔اور اگر میں نماز کی بات کروں تواسی نماز کو کہیں ’’مومن کی مواج کیا گیا ہے۔‘‘کہی جنت کی کنجی کہاگیا ہے،کہیں حضورپاک ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کہاگیاہے۔ تو کہیں اس کودین ستون کہاگیا ہے۔ یہ ارکان مسلمان کیلئے اتناہی ضروری ہے جتنے کے دوسرے ارکان ضروری ہے ۔بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بس ہم نے کلمہ پڑھ لیاہے بس مسلمان ہوگئے ہیں اور ہم بخشے جائے گے ۔اس ارکان کے علاوہ باقی کسی ارکان کی ضرورت نہیں ۔کچھ لوگ ایسے بھی ہے جن کا یہ عقیدہ ہے کہ ہماری نمازیں پڑھی ہوئی ہیں ہم روز قیامت بخشے جائیں گئے تو میں اپنے اُن مسلمانوں بھائیوں کو یاد دواناچاہتا ہوں کہ کربلا کے میدان میں بھی حضرت امام حسینؓ نے سر تو تن سے جدا کروادیالیکن دین حق کو نہیں چھوڑا اور سب سے بڑی حیرن ہونے کی بات ہے کہ دشمنوں کے ہونے کے باوجود آخری وقت تک نماز کو نہیں چھوڑا ۔میرااُن بھائیوں سے یہ سوال ہے کہ ہم جس نبی ﷺ کی اُمتی اور اُن کے نواسوں کو ماننے والے ہیں انھوں نے آخر ی وقت تک نماز کو نہیں چھوڑا تو ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ ہم بخشے جائے گئے یا ہماری نمازیں پڑھی پڑھائی ہیں ۔اگر ہم آج کے اس جدید دور میں نئی آنے والی نسل سے نماز کے بارے میں پوچھے تو بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو کہ نماز کے بارے میں نہیں جانتے کہ اس کو کیسے ادا کرتے ہیں یا پڑھنے کا طریقہ کیا ہے ۔
ہمیں آج ڈراموں ،فلموں اور گانوں کے بارے میں تو بہت معلومات ہے۔اور اسی وجہ سے آج ہم اپنی آخر ت کو تو خراب کرہی رہے ہیں ۔جیسے کہ آج ہر انسان یہ سوچتا ہے کہ میرے پاس عیش و�آرام کی ہر چیز موجود ہو ۔میرے پاس ،دولت ہو،رزق ہو،اولاد فرمابردار ہو ،راحت ہو ،میں حسین بھی ہوجاؤں اور میرے پاس دینا کی طاقت ہو بلکہ میں ہر جگہ ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں ۔اور انسان اپنی ہر کو شش کرنے کے بعد اپنے سوچ کودوے کار لانے میں ناکام ہوگیا ہے۔اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ نماز سے دوری اورنمازسے غفلت ہے۔آج انسان جن چیزوں کی طالب کرتا ہے وہ سب چیزیں دین کے اس ستون( نماز)سے حا صل کر سکتے ہیں۔لفظ حیےٰ اللفلاح جس کو ہم دن میں پا نچ مرتبہ سنتے ہیں لیکن اس کے مفہوم یا ترجمہ کو نہیں سمجھتے جس کا مطلب ’’آؤ کا میابی کی طرف یا آؤ فلاح کی طرف‘‘ اور ہم کامیابی حا صل کرنے کیلئے پتہ نہیں کیا کیا کرتے ہیں۔یہ لفظ ہمیں اس با ت کی طرف اشارہ کروا رہا ہے کہ کا میابی نمازمیں ہی ہیں۔جس کو ہم پڑھتے نہیں ہے پھر ہم شکوے گلے اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔آج کے اس دور میں ہر انسان کے پریشان ہونے کی وجہ بھی یہی ہیں۔حدیث نبوی ہیں۔’’جس نے فجر کی نماز ترک کی اس کے چہرے سے نور ختم کر دیا جاتا ہے۔‘‘ ’’جس نے ظہر کی نماز ترک کی اس کی روزی سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔‘‘’’جس نے عصر کی نماز ترک کی اس کے جسم سے طاقت ختم کردی جاتی ہے۔‘‘جس نے مغرب کی نماز رترک کی اُس کو اُس کی اُولاد کی خوشی حاصل نہ ہوگی ۔‘‘’’جس نے عشاء کی نماز ترک کی اُس کی نیندسے راحت ختم کردی جاتی ہے۔‘‘اگر ہم ان سب چیزوں کو دیکھتے تو ہر انسان یہ سہولیتں چاہتا ہے کہ میرے رزق میں وسعت ہو، میرے پاس دنیاکی طاقت ہو ،اُولاد فرمابردارہواور میں رات کو چین کی نیند سو سکوں ۔لیکن آج نفسہ نفسی کے دور میں ہر انسان آبھول چکاہے کہ سب چیزیں تو میرے پاس ہیموجود ہے میں جن کی تلاش میں میں اپنی آخرت اور دنیا کو خراب کیے جارہا ہوں ۔سب سہولیتں اللہ تعالیٰ نے نماز میں ہی رکھ دی ہیں جس پر عمل کر کے انسان اپنی آخرت کو اور دنیا کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں ۔میں انتہائی شرم سے یہ بات کہتا ہوں کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہے اور نماز نہیں پڑھتے ہالانکہ حدیث شریف کا مفہوم واضح ہے کہ ’’مسلمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑ دینے کا فاصلہ ہے۔‘‘اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ۔جس نام کے مسلمان اور یہ نماز جیسا غصہ ہی جس کا دامن تھام کر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ورنہ کامیابی ممکن ہی نہیں ۔